افغان امن معاہدہ حکومت کی سست روی اور طالبان کی ضد کے باعث ڈیڈ لاک کا شکار
افغانستان امن معاہدہ کے نفاذ پر عمل درآمد کے پہلے مرحلے میں ہی ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے۔ افغان حکومت نے ماہ رمضان میں جنگ بندی کا کہا ہے لیکن افغان طالبان نے اسے مسترد کر دیا ہے۔
افغان حکومت طالبان قیدیوں کی رہائی میں سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے تو افغان طالبان مزید بات چیت سے انکاری ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ سے مذاکرات میں فریقین اس امن معاہدے پر عملدرآمد کے لیے تیار نظر آتے ہیں اور ’منم‘ یعنی مانتا ہوں کی بات کرتے ہیں مگر جب عملدرآمد کی بات ہوتی ہے تو وہاں اس پر عمل درآمد نہیں ہو پاتا جس میں ’نہ منم‘ یعنی نہیں مانتا ہوں کی بات سامنے آجاتی ہے۔
قیام امن کے لیے افغان صدر اشرف غنی نے دنیا میں کورونا وائرس کے خطرات اور ماہ رمضان کے تقدس کی خاطر جنگ بندی کا کہا ہے۔ اس بارے میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ انھوں نے امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس میں پائیدار امن کے قیام اور جنگ بندی سمیت تمام معاملات کا حل ہے اور اس معاہدے کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور عالمی سطح پر تائید حاصل ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کی وجہ سے ہزاروں قیدیوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں ایسے میں امن معاہدے کے نفاذ میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں جنگ بندی کا کہنا غیر معقول ہے۔
افغان طالبان کا کہنا ہے جب امن معاہدہ طے پا چکا ہے اور اس پر عمل درآمد سے جنگ بندی بھی ہو سکتی ہے اور امن کا قیام بھی ممکن ہو گا تو اس پر عمل درآمد یقینی بنانا چاہیے۔ دوسری جانب ایسی اطلاعات ہیں کہ افغان حکومت کو قیدیوں کی رہائی میں قانونی مسائل درپیش ہیں۔
No comments:
Post a Comment