Colum


قوم پرستی اور اخلاقیات


آج کے نام نہاد تعلم یافتہ لوگوں نے قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ کر انسانو ں کے خقوق کے لیے اوز بلند کرنے کی غرض سے 

ایک نئی منطق پیش کردی ہے کہ معاشریے سے فحاشی کا خاتمہ فحاشی کے اڈوں کے ذریعے ممکن ہے، اور ڈنکے کے چوٹ پر اس کا مطالبہ بھی کر دیا۔

المیہ یہ ہے کہ بہت سے با شعور افراد بھی اس کی حمایت میں پر تولتے نظر آتے ہیں۔ البتہ یہ قانون فطرت کے منافی اور اخلاقیات سے گری ہوئی سوچ ہے۔آئیں ہم اس اخلاقی مرض کے خاتمے کےلیے کچھ اقدامات پر روشنی ڈالیں گے۔۔۔ہمارے سکولوں میں اخلاقیات کے مضمون کو پرائمری کلاس لیکر سے ماسٹر تک لازمی قرار دی جائے اور اس کے پریکٹیکل کے بھی نمبر رکھے جائے۔ ۔۔ بچوں کو جنسیات کے بارے میں آگاہی دی جائے کیونکہ یہ بھی آخلاقیات کا ہی جز ہے ۔۔۔۔ نوجوانوں کو سیکس کے بارے میں اگاہی کے ساتھ ساتھ اس تک شرعی طریقے سے رسائی کے لے اقدامات کئے جائیں، اس ضمن میں ترک صدر کا بیان قابل توجہ ہے، شادی کو زند گی اور موت مسئلہ نہ بنایا جائے اس میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔

آج اہل مغرب خاندانی نظام زندگی کےلئے اقدامات کررہیں اور ہم ہیں ان کے مسخ شدہ نظام کے حامی نظر آتے ہیں، یہ بھی اخلاقی پستی کی نشانی ہے۔آج کے معاشرے میں آصف ناجی جیسے لوگ جہاں فحاشی کے اڈوں کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں وہیں اس کا ذمہ دار ملاوں کو قرار دیتے ہیں، خود ہی اس کے خاتمے کےلئے پولیس ایس۔ پی اور آئی جی سے گزارش کرتے نظر آتے ہیں ۔۔میرا ان سے سوال یہ ہے کہ کیا اس غریب لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی سیاست دانوں اور افسران کی ملی بگھت سے ہوئی تھی یا اس میں بھی ملا شامل تھے؟؟آج انہی دین کے مخافظوں کی وجہ سے ارض بلتستان میں امن اور آشتی کی فضا قائم ہے۔ اور ٩٠ فیصد برائیوں کے سدباب میں ان کا ہاتھ ہے تو فرقہ پرستی، قوم پرستی جیسی لعنت کے روک تھام میں ہم انہی ملاوں کے مرہون منت ہیں، اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ سر زمیں بلتستان کے حقیقی وارث امام زمان علیہ السلام کے یہی سر بکف مجاہد ہیں۔یونیورسٹیز اور کالجز میں ڈاکٹرز (اساتذہ) کے نام پر دین خدا اور اخلاقیات سے نابلد لوگوں کو بلکل گھسنے نہ دیا جائے۔ اور ان تعلیمی مراکز میں ماہرین اخلاقیات پر مشتمل ایک بورڈ قیام میں لایا جائے اور ان مقدس جگہوں میں اساتذہ بھرتی کرنے سے پہلے ان کو اخلاقی کسوٹی میں پرکھے، اگر ان قواعد و ضوابط پر پورا پورا اترنے والوں کو تدریس کے مقدس پیشے میں وارد ہونے کی اجازت دی جائے۔

 ہسپتالوں سکولوں ،کالجوں اور دیگر عوامی اداروں کے چھوٹے سے چھوٹے اسٹورز سے لیکر بڑی جگہوں تک ہر ایک انچ کی سی۔ سی کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جائے۔ باہر سے آنے والے ہر شخص کی نگرانی انظامیہ کی ذمہ داری ہے، اس کو بھی یقینی بنایا جائے افسوس کے ساتھہ کہانا پڑتا ہیں فحاشی کو پروان چڑھانے میں جدید میڈیکل اور انجنیئرنگ کالجز پیش پیش نظر آتے ہیں ۔ان کے ساخت میں تبدیلی اور روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے ۔ شادی بیاہ سے پہلے یونیورسٹیز میں ایڈمیشن سے روکا جائے تاکہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بچایا جاسکے اور خاندانی منصوبہ بندی پر خاص توجہ دی جائے تاکہ آبادی میں تناسب برقرار رہے سکے۔ ارض بلتستان میں موجود تمام چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں بشمول اکیڈمیز و دیگر جگہوں سے فی الفور مخلوط نظام تعلیم ( کو ایجوکیشن)کا خاتمہ کیا جائے۔ خواتین کے لیے الگ اور خواتین سٹاف پر مشتمل ادارے قائم کئے جائیں۔ اسلامی ریاست کیذمہ داری ہے کہ خواتین کے حجاب کے حوالے سے اسلامی موازین کے مطابق عمل کرانے کے لیے قدم اٹھایا جائے، اور ساتھ ساتھ بے پردگی، اور عریانیت کی حوصلہ شکنی کی جائے۔اور بھی انگنت وجوہات اور اس کے حل موجود ہیں ۔البتہ بیان طولانی ہونے کی وجہ اپنے مطالب سمیٹ رہا ہوں اور آخر میں نام ونہاد قوم پرستوں اور اہلیاں گلگت بلتستان کے نام اہم پیغام۔ان ساری برائیوں کو ریاست با آسانی ختم کر سکتی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان در در کے ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔ ہمیں تعلیمی اور دیگر اداروں مخصوصا سول سروسز سے دور رکھا جا رہا ہے، نہ وفاق میں سٹیں ہیں اور نہ ہی اپنے صوبہ میں سیٹ، دس سے زائد اضلا ع پر مشتمل گلگت بلتستان کے طول و عرض میں دیگر صوبوں سے آئے ہوئے عیش پرست، بے حس، اور بے درد آفیسرز مسلط ہیں۔  ان لو گوں کو ہمارے عوام سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ غرض، ان کو اپنی بینک بیلنس، عیاشی اور کرسی سے غرض ہیں۔ وہ یہی چاہتے کہ ہم آصف ناجی کی طرح ان سے کے مطالبہ کرتے رہیں اور خود حکومت گلگت بلتستان کے خرچے کے ساتھ ہم پر مسلط رہیں۔ اس ضمن میں سابق چیف سیکریٹری بابر حیمد کا رویہ قابل ذکر ہے۔ ان کے کچھ کرتوت قابل بیان بھی نہیں۔نوٹ :امید ہے کہ آپ با شعور، تعلیم یافتہ، اور احساس ذمہ داری والے فرد کی حیثیت سے گلگت بلتستان اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے اقدامات کرینگے، سازشی عناصر کے قلع قمع کرنے سے ہی معاشرے کی برائیوں سے نجات مل سکتا ہے، اور یہی عین وطن پرستی ہے، جس کی اسلام نے تائید کرتے ہوئے کہا ہے، وطن دوستی ایمان کا حصہ ہے

No comments:

Post a Comment

ہندوستان: کرناٹک اسمبلی میں مسلم ارکان کی تعداد میں اضافہ

  ہندوستان: کرناٹک اسمبلی میں مسلم ارکان کی تعداد میں اضافہ ہندوستان کی جنوبی ریاست کرناٹک میں ہوئے حالیہ اسمبلی انخابات میں 9 مسلم امیدوار ...